Wednesday, 28 March 2018

فوربز کی فہرست میں شامل پاکستانی اور ان کے کارنامے

فوربز کی فہرست میں شامل پاکستانی اور ان کے کارنامے

فوربز کی جانب سے 30 ایشیائی بااثر اور کامیاب نوجوانوں کی فہرست جاری کی گئی۔ اس فہرست میں ان نوجوانوں کو شامل کیا گیا ہے جو اپنے اپنے ملک میں چیلنجنگ ماحول ہونے کے باوجود اپنی محنت اور کوششوں سے مثبت تبدیلیاں لانے میں کامیاب رہے۔
اس فہرست میں 30 برس سے کم عمر کے ان مردوں اور خواتین لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو اپنے ملک میں تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں۔
سعدیہ بشیرتصویر کے کاپی رائٹSADIA BASHIR
Image captionسعدیہ پاکستان میں نوجوانوں کو ویڈیو گیم ڈیزائنگ کی تربیت دینا چاہتی ہیں
سنہ 2018 کے لیے ایسے ہی نوجوان فنکاروں، سائنسدانوں اور تاجروں کی فہرست میں شامل نو پاکستانیوں میں پہلا نام سعدیہ بشیر کا ہے۔

سعدیہ بشیر

فوربز کی فہرست میں شامل سعدیہ بشیر کے سر پاکستان میں ویڈیو گیمز انڈسٹری کی بنیادیں مضبوط کرنے کا سہرا ہے۔
سعدیہ پاکستان میں نوجوانوں کو ویڈیو گیم ڈیزائنگ کی تربیت دینا چاہتی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی سیلیکون ویلی میں ویڈیو گیمز کے ڈیزائنرز سے ملنے کے بعد اب وہ ان کے ساتھ مل کر پاکستان میں تربیتی پروگرامز منعقد کروانا چاہتی ہیں۔
سعدیہ بشیر پاکستان میں سالانہ گیمز کانفرنس کرواتی ہیں جس میں بین الاقوامی سپیکرز بھی سکائپ پر شامل ہوتے ہیں۔
وہ ہر سال سماجی معاملات سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے گیمز کا مقابلہ بھی کرواتی ہیں۔ اسی طرح انھوں نے کینسر کے مریضوں کی جانب سے مرض کی شناخت، پانی میں آلودگی کا سبب بننے والی چیزوں سے متعلق آگہی اور امن کے پھیلاؤ اور اسے متاثر کرنے والے عناصر کی شناخت پر گیمز بنائی گئیں۔
وہ خواتین کے مسائل سے متعلق ایک گیم کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں جس میں بحیثیت عورت یہ گیم کھیل کر ایک عورت کے مسائل اور فیصلوں سے آگہی ملے گی۔

طبی میدان کے ہیرو: اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ

سنہ 2006 عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کلے مطابق پاکستان ان 57 ممالک میں شامل تھا جہاں طبی میدان میں عملے اور مہارت کی شدید قلت تھی۔
اسی ضرورت کی پیشِ نظر رکھتے ہوئے دو پاکستانی تخلیقی دماغوں نے نیوروسٹک نامی ویب سائٹ بنائی۔
محمد اسد رضا اور ابراہیم علی شاہ دونوں کی عمر 24 برس ہے اور اس ویب سائٹ کے قیام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے کم خرچ اور اعلیٰ معیار کے طبی آلات فراہم کرنا ہے۔
نیوروسٹک طبی خدمات کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان، ایران اور شام کے ان علاقوں میں مصنوعی اعضا کی فراہمی کی خدمت بھی انجام دیتا ہے جہاں لوگوں کی بحالی کی سہولیات تک رسائی کم ہے یا بالکل نہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ابراہیم علی شاہ کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں ملنے والے مصنوعی اعضا اصلی اعضا کی جگہ تو لے لیتے ہیں لیکن یہ کام نہیں کر سکتے۔
’پہلے دستیاب مصنوعی اعضا کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنا اترنا، گاڑی چلانا، بھاگنا یا پتھریلے رستوں پر چلنا ممکن نہیں تھا۔ ہمارے بنائے گئے اعضا میں حقیقی اعضا کی طرح گرفت ہے۔ اور ان کی قیمت بھی بہت کم ہے۔ لاکھوں میں ملنے والی چیز اب ہزاروں میں دستیاب ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’ہمارے دفاتر لاہور اور اسلام آباد میں ہیں۔ یہ تمام مصنوعی اعضا مقامی طور پر فیصل آباد میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اعضا تو پہلے سے یہاں بنتے تھے ہم نے انہیں رہنمائی دے کر منصوعات کو پہلے سے بہتر بنایا ہے۔‘
عدیل شفیعتصویر کے کاپی رائٹADEEL SHAFI

انٹرنیٹ پر کاروبار

عدنان شفیع اور عدیل شفیع

28 سالہ عدنان شفیع اور 29 سالہ عدیل شفیع دونوں بھائی ہیں جنہوں نے سنہ 2015 میں پرائس اوئے کے نام سے انٹرنیٹ پر ایک پلیٹ فارم بنایا جہاں پاکستان کے نسبتاً چھوٹے شہروں میں برقی آلات کے قیمیوں میں تقابل کیا جا سکتا ہے۔
اس پلیٹ فارم کے ذریعے ریٹیلرز جو مارکیٹ میں رائج قیمتوں کی معلومات مل جاتی ہیں جبکہ صارفین کو اچھی قیمت پر اشیا۔ اس سے پہلے ای کامرس سٹورز کی توجہ صرف بڑی شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد ہی رہتی تھی۔
ان کی اس ویب سائٹ کو گذشتہ ماہ 805000 لوگوں نے دیکھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عدیل شفیع نے فوربز کی جانب سے پذیرائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب مزید بہتر کام کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ایک مرتبہ اپنے کمپنی کے ملازمین کو تحفے میں آئی فون دیے تو تمام تر تحقیق کے باوجود خریداری کر لینے کے بعد علم ہوا کہ ایک جگہ سے مزید سستے فون مل رہے تھے۔ اس بات سے ہمیں احساس ہوا کہ ٹیکنالوجی کی معلومات ہونے کے باوجود ہم نے مزید بچت کا موقع گنوا دیا۔ اس لیے ہم نے مزید تحقیق کی کہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی کتنی ضرورت ہے۔ اس کے ہمیں کافی حوصلہ افزا نتائج ملے۔‘
عدیل شفیع کا کہنا تھا ’ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ کام ہو رہا تھا تو ہم نے پاکستان میں بھی یہی کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہمارے پارٹنر سٹور ہیں۔ جہاں ہم ایسے سٹور کو رجسٹر کرتے جو ہمارے معیار پر پورا اترتا ہے اور صارفین کی ضروریات پورا کرنے کا اہل ہوتا ہے۔`
عدیل کے بقول ’ہر کسی کو رجسٹر کرنا ناممکن ہے کیونکہ آن لائن شاپنگ میں اعتبار بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہماری ویب سائٹ اشیا کی قیمتوں کے تقابل کے ساتھ ساتھ رجسٹر شدہ سٹورز کی مکمل معلومات بھی فراہم کرتی ہے اور یہ بھی کہ اس سٹور سے مصنوعات کتنے وقت میں صارف تک پہنچا دی جائیں گی۔‘

سماجی خدمات

حمزہ فرختصویر کے کاپی رائٹHAMZA FARUKH
Image caption24 سالہ حمزہ فرخ ویلیئم کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں

حمزہ فرخ

پاکستان کے بیشتر دیہاتوں میں پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو گھنٹوں پیدل سفرکرنا پڑتا ہے۔ بوندِ شمس کے خالق اسی چیز کو بدلنا چاہتے تھے۔
حمزہ فرخ 1998 میں چکوال کے ایک نواحی گاؤں میں کنویں کا آلودہ پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہو گئے تھے اور امریکہ میں دورانِ تعلیم جب انہیں کسی سماجی منصوبے پر کام کرنے کا موقع ملا تو انہیں اپنے گاؤں کا خیال آیا۔
ان کے شمس پانی نام کے اس منصوبے کا مقصد پاکستان کے ایسے غریب علاقوں میں صاف پانی کی کمی کو پورا کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت شمسی توانائی سے چلنے والے دو کنوئیں بنائے گئے جو ایک گاؤں کے 1500 افراد کو صاف پانی فراہم کرتے ہیں۔
ہر ایک پمپ روزانہ 5000 لوگوں کے لیے صاف پانی نکالنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ وہ اب تک ایسے تین منصوبے لگا چکے ہیں اور انھیں بعد میں مقامی لوگوں کے حوالے کا کر دیا جاتا ہے۔ 24 سالہ حمزہ فرخ ویلیئم کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔

فیضان حسین

فیضان حسینتصویر کے کاپی رائٹFAIZAN HUSSAIN
Image captionفیضان حسین کا کہنا تھا کہ ان کی مصنوعات کا مقصد پاکستانی لوگوں کو سہولت دینا تھا
23 سالہ فیضان حسین پیری ہیلیئن سسٹم نامی کمپنی کے خالق ہیں۔ فطری طور پر کم گو فیضان میٹرک کے بعد فلاحی اداروں میں رضاکار کی حیثیت سے کام کرنے لگے تو سماجی خدمت نے ان کے دل میں گھر کر لیا۔ اسی لیے انھوں نے اپنی تعلیم کو استمعال کرتے ہوئے ایسے منصوبوں پر کام کیا جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آتے۔
فیضان حسین نے سب سے پہلے ایجو ایڈ کے نام سے سافٹ وئیر بنایا جو قوتِ گویائی سے محروم افراد کی اشاروں کی زبان کو الفاظ میں تبدیل کر کے ایسے لوگوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جنہیں اشاروں کی زبان نہیں آتی۔
اس کے بعد انھوں نے ون ہیلتھ کے نام سے ایک ایسے منصوبے پر بھی کام کیا جس میں ایک بڑے علاقے میں لوگوں کے صحت سے متعلق کوائف اور ہسٹری کو یکجا کیا گیا جس کی مدد سے ڈاکٹرز کو مرض کی تشخیص اور علاج میں معاونت ملے۔
ان کی ایک ایجاد گلو گیج بھی تھا ایک ایسا دستانہ جسے صنعتوں میں کام کرنے والے افراد کے لیے بنایا گیا جس میں بیک وقت متعدد سہولیات ہونے کی وجہ سے کام کرنے والوں کو ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ آلات رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فیضان حسین کا کہنا تھا کہ ’چونکہ اس دستانے کی قیمت سات سے دس ہزار روپے تھی اس لیے ایک ایسا ملک جہاں ایک مزدور کی آمدن ہی زیادہ سے زیادہ دس ہزار ہو وہاں کوئی کمپنی اپنے مزدور کو ایک ایسا دستانہ کیوں لے کر دی گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی مصنوعات کا مقصد پاکستانی لوگوں کو سہولت دینا تھا اس لیے انھوں نے اس کی پیرونِ ملک فروخت کے بارے میں نہیں سوچا۔
شہیر نیازی
Image captionشہیر کی تحقیق جس نئے پہلو کو سامنے لائی وہ تھا تیل کی سطح پر حرارت کا فرق

شہیر نیازی

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے رہائشی محمد شہیر نیازی کی برقی چھتوں یعنی 'الیکٹرک ہنی کوم' پر کی گئی تحقیق پر مبنی مضمون رائل سوسائٹی اوپن سائنس جنرل نے شائع کیا گیا۔
یہ جریدہ دنیا بھر سے سائنس، ریاضی اور انجینیئرنگ کے میدان میں ہونے والی تحقیقات شائع کرتا ہے۔
شہیر کی تحقیق جس نئے پہلو کو سامنے لائی وہ تھا تیل کی سطح پر حرارت کا فرق۔ شہیر نے اس عمل کی تصویر کشی بھی کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
شہیر کہتے ہیں کہ برقی چھتوں کے عمل سے حاصل ہونے والے علم کا استعمال بائیو میڈیسن، پرنٹنگ اور انجینیئرنگ میں ہوتا ہے۔ 'اس طریقے سے ہم برقی رو یا تیل کے ذریعے دوا کی ترسیل کر سکتے ہیں۔ مختلف طریقوں سے تیل کے ساتھ جوڑ توڑ کی جا سکتی ہے۔'
مستقبل میں شہیر طبعیات کے حوالے سے علم کو بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دنیا کی کسی اچھی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے اس شعبے میں تحقیق کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
Momina Mustehsan uses her fame to highlight issues affecting young women, including in the world of sportsتصویر کے کاپی رائٹASIM FAROOKI
Image captionمومنہ مستحسن نے اپنی شہرت کے ذریعے خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا

مومنہ مستحسن

مومنہ مستحسن کو کوک سٹوڈیو سے مقبولیت ملی۔ انھوں نے راحت فتح علی خان کے ساتھ گانا گایا تھا۔ اُن کے گانے کی ویڈیو کو یو ٹیوب پر نو کروڑ 70 لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔
مومنہ نے سوشل میڈیا پر ڈرانے دھمکانے کے خلاف مہم چلائی۔ جس کے بعد انسٹا گرام پر depressionisreal# کے ہیش ٹیگ سے انھوں نے دو ویڈیو شیئر کیں، جنھیں لاکھوں افراد نے دیکھا۔ ان ویڈیوز میں دماغی صحت کے بارے میں کھل کر بات کی گئی۔
سوشل میڈیا پر مومنہ کی پوسٹس کو ہر ماہ اوسطً دو کروڑ افراد دیکھتے ہیں اور پاکستان میں اُن کا شمار سوشل میڈیا کے بہت زیادہ نمایاں اور اثرروسوخ رکھنے والے افراد میں ہوتا ہے۔
25 سالہ مومنہ مستحسن خواتین کے مسائل پر بات کرتی ہیں تو انہیں سنا جاتا ہے کیونکہ وہ بہت سنجیدہ موضوعات کا انتخاب کرتی ہیں جن میں لڑکیوں کے لیے لڑکوں جتنے مواقع، اجرت اور مساوی عزت شامل ہے۔

No comments:

Post a Comment